Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج)
1 - 198
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتاب الزّکوۃ
مسئلہ ۱: از بکاجبی والاعلاقہ علاقہ جاگل ہری پور ڈاک خانہ کوٹ نجیب اللہ خاں مرسلہ مولوی شیر محمد خاں ۷ ربیع الاوّل شریف۱۳۱۲ھ

جناب عالی فیض بخش فیض رساہ امید گاہ جاویداں بندہ سے ایک مولوی امرت سر سے آئے ہیں وہ کسی بات کا جھگڑا کیا تھا تو بندہ نے کہا کہ نماز کا اللہ نے بہت بار قرآن شریف میں ذکر کیا ہے اور زکوٰۃ کا بھی بہت بار ذکر کیا ہے مگر روزہ کا ایک بار ذکر کیا ہے ، جنا ب عالی یہ صحیح ہے یا نہیں ؟اور عُشر کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے یا نہیں ؟
الجواب :

 فی الواقع نماز و زکوٰۃ کی فرضیت و فضیلت و مسائل تینوں قسم کا ذکر قرآن مجیدمیں بہت جگہ ہے یہاں تک کہ مناقب بزازی و بحرالرائق و نھرالفائق و منح الغفار و فتح المعین وغیر ہا میں واقع ہوا کہ علاوہ اُن مواقع کے جن میں نماز  و زکوٰۃ کا ذکر جُدا جُداہے دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر قرآنِ عظیم میں بیاسی۸۲ جگہ آیا ہے ، مگر علامہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی ساداتِ کرام محشیانِ درِمختار فرماتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ اُن کا ساتھ ساتھ بتیس ۳۲ جگہ فرمایا ہے ۔ علامہ حلبی کے استاد نے وُہ سب مواقع گنا دئیے درمختارمیں ہے :
قرنھا بالصلٰوۃ فی اثنین و ثمانین موضعا۱؎
 (بیاسی ۸۲مقامات پر زکوٰۃ کو نمازکے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ت )
 (۱؎ درمختار         کتاب الزکوٰۃ        مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۱۲۹)
شرح مسکین و حاشیہ سیدازھری میں ہے :
  قرن الزکوۃ فی اٰی من القراٰن اثنین و ثمانین موضعا۱؎ھ ملخصا
آیات قرآنی میں بیاسی۸۲جگہ زکوٰۃ کو نماز سے متصل بیان کیا گیا ہے اھ تلخیصاً (ت)
 (۱؎فتح المعین علیٰ شرح ملا مسکین     کتاب الزکوۃ            ایچ ایم سعید کمپنی کراچی             ۱ /۳۶۹)
طحطاوی وردالمحتار میں ہے :
واللفظ لط قولہ فی اثنین وثمانین مو ضعا تبع فیہ صاحب النھر والمنح وتبعا صاحب البحر معزیا الی المناقب البزازیۃ وصوابہ اثنین وثلاثین کما عدھا شیخنا السید اھ حلبی بزیادۃ۲؎۔
اس کی عبارت ط ہے کہ ان کا قول بیاسی ۸۲ مقامات پر ایسا ہے ، اس میں  صاحبِ نہر ا ورمنح نے اتباع کی ہے ، اور ان دونوں نے صاحبِ بحر کی اتباع کی ہے ، انہوں نے مناقبِ بزازیہ کی طرف نسبت کی ہے ، اور درست یہ ہے کہ زکوٰۃ کو نماز سے متصل جن مقامات پر بیان کیا گیا ان کی تعداد بتیس ۳۲ ہے جیسے کہ اس تعداد کو ہمارے شیخ سید نے شمار کیا اھ حلبی مع اضافہ ۔ (ت)
(۲؎ ردالمختار             کتاب الزکٰوۃ             مصطفٰی البابی مصر            ۲/۲ )
اور فر ضیتِ  روزہ کا ذکر  صرف ایک ہی جگہ ہے ، ہاں عبارۃً  و اشارۃً  اس کی فضیلت اور مواقع پر بھی ظاہر فرمائی گئی ہے:
کقولہ تعالٰی فی سورۃ الاحزاب اِنَّ المسلمین والمسلمٰت(الیٰ قولہ تعالی )والصائمین والصائمات ۳؂(الیٰ ان قال تعالٰی) اعدﷲلہم مغفرۃواجر اعظمیما  o ۴؎ وقولہ تعالٰی فی سورۃ التوبۃ التائبون العبدون الحامدون السائحون۵؎ الآیۃ وقولہ تعالٰی فی سورۃ التحریم" تائبات عابدات  سائحات" السائح ھوالصائم ۱؎۔
مثلاًسورہ احزاب میں اﷲ تعالٰی کا قول ہے : بلا شبہ مسلمان مرد اور مسلمان خواتین (اﷲ تعالٰی کے اس فر مان تک )رو زہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی خواتین (یہاں تک کہ فرمایا )اﷲتعالٰی نے ان کے لئے مغفرت اور اجرِ عظیم تیّار رکھا ہے  اور سورہ توبہ میں ارشاد ِ باری تعالٰی ہے : توبہ کرنے والے عبادت کر نے والے ، حمد کرنے والے ، روزہ رکھنے والے اور سورہ تحریم  میں ارشاد باری تعالٰی ہے : توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے وا لیاں، روزہ رکھنے والیاں ۔ السائح کا معنی روزہ رکھنے والا ہے (ت)
(۳ ؎ القرآن ۳۳ /۳۵)   (۴؎ القرآن ۳۳/۳۵ ) ( ۵ ؎القرآن) (۹ /۱۱۲) ( ۱؎ القرآن ۶۶ /۵ )
عشر کا ذکر بھی قرآنِ عظیم میں ہے :
قال تعالی فی سورۃ الانعام
و اٰتوا حقہ یوم حصادہ۲؎ ۔ اﷲتعالٰی نے سورۃ الانعام میں فرمایا: کھیتی کٹنے کی دن اس کا حق ادا کرو ۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک اس حق سے مرادعشرہے )
 ( القراٰن   ۲؎ ۶ /۱۴۲)
قالہ ابن عباس و طاؤس والحسن و جابر بن زید و سعید بن المسیّب ۳؎ ۔ رضی اﷲ تعالٰی عنھم کمافی المعالم وغیرھا، واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
(حضرت ابن عباس، طاؤس ، حسن ، جابربن زید اور سعید بن المسیّب رضی اﷲتعالٰی عنہم ان تمام حضرات نے اس سے عشر مراد لیا ہے جیساکہ معالم التنزیل وغیرہ میں ہے ۔ ت) واﷲتعالٰی اعلم
 (۳؎معالم التنزیل علیٰ ھامش الٰخا زن تحت آیہ مذکورہ         مصطفی البابی مصر         ۲ /۱۹۱)
مسئلہ۲:مرزا باقی بیگ صاحب رامپوری ۱۰ذی قعدہ ۱۳۰۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند مسلمانوں نے ایک صاحب کا کچھ ماہوار نقد بطور چندہ مد زکوٰ ۃ میں سے اور طعام شبانہ روز مقرر کردیا اور کوئی کام خدمت یا بدل وغیرہ  ان کے ذمہ نہیں کیا ،غرض ان لوگوں کی ایک مسلمان بزرگ و مسکین کے ساتھ سلوک کرنا تھا اور ایسے شخص کا اپنے محلّہ و مسجد میں رہنا موجبِ خیر و برکت سمجھا، اسی طور پر عرصہ قریب چار سال کی گزرا کہ یہ لوگ مو افق اپنے وعدے اور نیّت کے خواہ وہ بزرگ اپنے وطن کو گئے یا یہاں رہے ، دیتے اور ادا کرتے رہے ، مگر بعض  نے ان میں عذر کیا اور کہا ہم ایامِ غیر حاضری کا نہ دیں گے ، تو اس صورت میں زکوٰ ۃ ان لوگوں کی ادا ہوئی یانہیں ؟بینو اتوجروا۔
الجواب :  اللہم ھدایۃ الحق والصواب :
اصل یہ ہے کہ زکوٰ ۃ میں نیّت شرط ہے بے اس کے ادا نہیں ہو تی،
فی الاشباہ ماالزکوٰۃ فلایصح ادا ھا الّابالنیۃ ۴؎
(اشباہ میں ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی نیت کی بغیر درست نہیں ۔ ت)
 ( ۴؎الاشبادہ والنطائر    القاعدۃ الاولیٰ من الفن الاول     ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کر اچی    ۱ /۳۰)
اور نیّت میں اخلاص شرط ہے بغیر اس کے نیّت مہمل ،
فی مجمع الانھرالزکوٰۃ عبادۃ فلابدّفیھامن الاخلاص ۱؎
 (مجمع الانہر میں ہے زکوٰۃ عبادت ہے لہٰذا اس میں اخلاص شر ط ہے۔ ت)
 ( ۱؎مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر         کتاب الزکوٰۃ         داراحیاء التراث العربی بیروت        ۱ /۱۹۲)
ور اخلاص کے یہ  معنٰی کہ زکوٰۃ صرف بہ نیّتِ زکوٰۃ و ادائے فرض و بجا آوری حکم الٰہی دی جائے ، اس کی ساتھ اور کوئی امر منافیِ زکوٰۃ مقصود نہ ہو۔ تنویر الابصار میں ہے :
الزکوٰۃ تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیرغیرھاشمی ولامولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ ﷲ تعالٰی۔۲؎
زکوٰۃ شارع کی مقرر کردہ حصہ کا فقط رضائے الہٰی کے لئے کسی مسلمان فقیر کو اس طرح مالک بنانا کہ ہر طرح سے مالک نے اس شے سے نفع حاصل نہ کرنا ہو بشرطیکہ وُہ مسلمان ہاشمی نہ ہو اور نہ ہی اس کا مولیٰ ہو ۔ (ت)
 (۲؎  درمختار          کتاب الزکٰوۃ            مطبع مجتبائی دہلی             ۱ /۱۲۹)
درمختار میں ہے:
ﷲتعالٰی بیان لا شتراط النیّۃ۔ ۳؎'
'اﷲکےلئے ہو '' کے الفا ظ نیت ہی کو شرط قرار دینے کیلئے ہیں۔ (ت)
  ( ۳؎ درمختار     کتاب الزکٰوۃ            مطبع مجتبائی دہلی             ۱ /۱۲۹)
ردالمحتار میں ہے :
متعلق بتملیک ای لاجل امتثا ل امرہ تعالٰی ۔ ۴؎ان کلمات (ﷲ تعالٰی )
کا تعلق لفظ تملیک سے ہے یعنی یہ عمل فقط اپنے رب کریم کے حکم کی بجا آوری کے طور پر ہو ۔ (ت)
( ۴؎ ردالمحتار کتاب الزکٰوۃ مصطفے البابی مصر ۲ /۴)
پھر اس میں اعتبار صرف نیّت کا ہے اگر چہ زبان سے کچھ اور اظہار کرے ، مثلاً دل میں زکوٰۃ کا ارادہ کیا اور زبان سے ہبہ یاقرض کہہ کردیا صحیح مذہب پر زکوٰۃ ادا ہوجائیگی۔ شامی میں ہے :
لااعتبارللتسمیۃفلوسماھا ھبۃاوقرضا تجزیہ فی الاصح۔۵؎
نام لینے کا اعتبار نہیں ، اگر کسی نے اس مال کو ہبہ یا قر ض کہہ دیا تب بھی  اصح قول کے مطابق زکوٰۃ ادا ہوجائے گی(ت)
 (۵؎ ردالمحتار              کتاب الزکٰوۃ             مصطفے البابی مصر             ۲ /۴)
        پھر نیت بھی صرف دینے والے کی ہے لینے والا کچھ سمجھ کرلے اس کا علم اصلاً معتبر نہیں ،
فی غمزالعیون العبرۃلنیۃ الدافع لالعلم المدفوع۔ ۱؎
غمزالعیون میں ہے کہ  اعتبار دینے والے کی نیّت کا ہے نہ کہ اس کے علم کا جسے زکوٰۃ دی جارہی ہے (ت)
 (۱؎ غمزعیون البصائر      کتاب الزکوٰۃ، فن ثانی مصطفی البابی مصر ۱ /۲۲۱)
ولہٰذااگر عید کے دن اپنے رشتہ داروں کو جنھیں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے کچھ روپیہ عیدی کا نام کر کے دیا اور انہوں نے عیدی ہی سمجھ کر لیا اور اس  کے دل میں یہ نیّت تھی میں زکوٰۃ دیتا ہوں بلاشبہ ادا ہوجائیگی ۔ اسی طرح اگر کوئی ڈالی لایا رمضان مبارک میں سحری کو جگانے والا عید کا انعام لینے آیا یا کسی شخص نے دوست کے آنے یا اور کسی خوشی کا مژدہ سنایا اس نے دل میں زکوٰۃ کا قصد کر کے ان لوگوں کو کچھ دیا ، یہ دینا بھی زکوٰۃ ہی ٹہرے گا، اگر چہ ان کے ظاہر میں ڈ الی لانے یا سحری کو جگانے یا خوشخبری کو سنانے کا انعام تھا ، اور انہوں نے اپنی دانست میں یہی جان کرلیا ،
خلاصۃالفتاوٰی و خزانۃالمفتین وغیر ھما معتبرات میں ہے :
لودفع علیٰ صبیان اقاربہ دراھم فی ایام العید یعنی عیدی بنیّۃالزکوٰۃ اودفع الیٰ من یبشرہ  بقدوم صدیق او یخبرہ بخبر او یھدی الیہ الباکورۃ او الی الطبال یعنی سحر خواں او  الی المعلم بنیّۃ الزکوٰۃ جائز۔ ۲؎
اگر کسی نے ایامِ عید میں اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو نیّت زکوٰۃسے عیدی دیدی یا اس شخص کو جس نے اس کے دوست کی آمد کی اطلاع دی یا کوئی خوشی والی خبر دی یا کسی کو  عید مبارک پر دی یا سحری کے وقت بیدار کرنے والوں یا استاد کودی تو زکوٰۃ ادا ہوجائیگی (ت )
 (۲؎ خلاصۃالفتاوٰی کتاب الزکوٰۃ    الفصل الثامن فی اداء الزکوٰۃ    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۴۳)
پھر زکوٰۃ صدقہ ہے اور صدقہ شرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتا بلکہ وہ شرط ہی فاسد ہوجاتی ہے ، مثلاًزکوٰۃ دی اور یہ شرط کرلی کہ یہاں رہے گا تو دُوں گا ورنہ نہ دونگا اس شرط پر دیتا ہوں کہ تو یہ روپیہ فلاں کام میں صرف کرے اس کی مسجد بنادے یا کفنِ اموات میں اٹھادے تو قطعاً زکوٰۃ ادا ہوجائیگی اور یہ شرطیں سب باطل و مہمل ٹہریں گی،
فی مصارف الزکوٰۃ من الدارالمختارلا الی بناء مسجد او کفنِ میّت و الحیلۃان یتصدق علی الفقیر ثم یا مرہ بفعل ھذہ الاشاء وھل لہ ان یخالف امرہ ولم ارہ و الظاھر نعم ۱؎ ۱ھ ملخصاً
درمختار کے مصارف زکوٰۃ میں ہے کہ مسجد کی تعمیر یا کفنِ میّت پر زکوٰۃ نہیں لگتی اور حیلہ یہ ہے کہ فقیرکو زکوٰۃ دی جائے ، پھر اسے ان کاموں میں خرچ کرنے کا کہا جائے ، کیا اس فقیر کےلئے اس دینے والے کے حکم کی خلاف ورزی جائز ہے، میری نظر سے نہیں گزرا۔ ہاں ظاہر یہی ہے کہ فقیر اس کے خلاف کرسکتا ہے اھ ملخصاً۔
 (۱؎ درمختار     کتاب الزکوٰۃ    باب المصرف        مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۴۱)
قولہ(والظاھرنعم) البحث لصاحب النہروقال لانہ مقتضی صحۃ التملیک قال الرحمتی  والظاھر انہ لا شبہۃ فیہ لا نہ ملکہ ایاہ عن زکوٰۃ مالہ و شرط علیہ شرطا فاسدا  او الھبۃ و الصدقۃ لا تفسدان بالشرط الفاسد ۲؎ اھ ردالمحتار۔
قولہ والظاہرنعم ، صاحب نہر نے اس پر بحث کر تے ہُوئے فر مایا کہ حُرمت تملیک کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ خلاف ورزی کر سکتا ہے ۔ رحمتی نے فرمایا : ظاہر یہی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں اس لیے کہ اس نے فقیر کو اپنے مال کی زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دیا اور ساتھ شرط فاسد کا اضافہ کردیا حالانکہ ہبہ اور صدقہ شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتے اھ  ردالمحتار  (ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الزکوٰۃ    باب المصرف          مصطفی البابی مصر         ۲ /۶۹)
پھر جب صریح شرط باوجود خلوصِ نیّت اداء  زکوٰۃ میں خلل انداز نہیں تو ایسا بر تاؤ جو بظاہر معنیِ شرط پر دلالت کرے مثلاًجب یہاں رہے تو دے اور نہ رہے تو نہ دے ، بدرجہ اولی باعث خلل نہ ہوگا۔
اقول: وقد ظہر ھذا من مسائل البشیر والطبال ومھدی البالکورۃ فانہ انما یحمل الناس علی الدفع الیھم افعالھم ھذھ ولو لم یفعلو افلر بمالم ید فع الیھم شیئ ومن ذلک مسئلۃ دفع العیدی بنیۃ الزکوٰۃ الی خدامہ من الرجال و النساء حیث یقع عن الزکوٰۃ کما فی المعراج وغیرہ مع العلم با نہ لو لم یخدموہ لما اعطا ھم و با لجملۃ فھذہ العلائق تکون بواعث للناس علیٰ تخصیصھم بصرف الزکوٰۃ فد وران العطاء معھا وجودا وعد ما لا یعین معنی التعویض وانما المراجع النیۃ فا ذا خلصت اجزت۔
اقول: بشارت دینے والے ، سحر خواں ( سحری کے وقت بیدار کرنے والا ) اور نئے پھلوں کا ہدیہ دنے والے کے مسائل سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کیونکہ لوگ ان کو ان کے عمل کی وجہ سے دیتے ہیں ، اگر وُہ یہ کام نہ کریں تو اکثر اوقات ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ، اسی طرح یہ مسئلہ کہ خدام(خواہ مرد ہوں یا خواتین )کو نیت زکوٰۃ سے عیدی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ، جیسا کہ معراج وغیرہ میں ہے ، حالانکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگروُہ خدمت نہ کرتے تو انھیں یہ رقم نہ ملتی ، الغرض یہ وہ تعلقات ہیں جن وجہ سے لوگ ان مخصوص لوگوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں تو اب عطا کا تعلقات کے ساتھ دوران وجوداً وعدماًعوض بنانے کے معنٰی کو معیّن نہیں کر تا، نیّت پر مدار ہوگا جب نیّت خالص ہو گی تو زکوٰۃ ادا ہوجائیگی ۔ (ت)
جب یہ امور ذہن نشین ہولیے تو جوابِ مسئلہ بحمدہٖ تعالٰی واضح ہوگیا ، اگر وُہ اگر دینے والے بقصدِ معاوضہ و بطورِ اُجرت دیتے یا نیتِ زکوٰۃکے ساتھ یہ نیت بھی ملالیتے تو بیشک زکوٰۃ ادا نہ ہوتی ۔
امّا علی الاوّل فلعدم النیۃ واما علی الثانی فلعدم الاخلاص ولایکون کنیۃ الحمیۃ  مع نیۃ الصوم حیث تجزی لانھا نیۃ لازم لا نیۃ مناف کما افادہ المولی المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر ولا کذلک ما ھنا فان التعویض یبائن التصدق۔
پہلی صورت (بقصدِ معاوضہ و اجرت) میں نیتِ زکوٰۃ ہی نہیں اور دوسری صورت یعنی (زکوٰۃ کے ساتھ معاوضہ کی نیت بھی ہو ) تو اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اور اس طرح نہیں جیسے بخار کی بناء پر رخصت کی نیت  روزہ کی نیت کے ساتھ کہ یہ جا ئز ہے کیونکہ نیت اس صورت میں لازم کی نیّت ہے منافی کی نہیں ، جیساکہ مولی محقق علی الاطلاق نے فتح القدیرمیں افادہ فرمایا ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ معاوضہ میں دینا صدقہ کہ منافی ہے۔ (ت)

جبکہ تقریر سوال سے ظاہر کہ انہوں نے محض بنیت زکٰوۃ  دیا اور اسے زکوٰۃ ہی خیال کیا،معاوضہ و اُجرت کا اصلاًلحاظ نہ تھا تو بے شک زکوٰۃ ادا ہوگئی اگر چہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دی گئی اپنے علم میں کچھ جانتا ہو ، اگر چہ انہوں نے اس سے صاف کہہ بھی دیا کہ یہاں رہوگے تو دیں گے  ورنہ نہ دیں گے، اگر چہ وُ ہ عمل بھی اس کے مطابق کریں یعنی ایامِ حاضری میں دیں غیر حاضری میں نہ دیں کہ جب نیت میں صرف زکوٰۃ کا خاص قصد ہے تو اُ ن میں کوئی امر اُ س کا نافی و منافی نہیں۔
کما حققنا فالا فتاء ھھنا بعدم الاجزاء بناء علیٰ مخالفۃ علم المدفوع الیہ کماوقع عن بعض المدعین علو ا الکعب فی العلم الدینیۃ ناش عن قلۃ التدبیر او سوء الفھم واﷲالمستعان وعلیٰ ازالۃ الوھم والحمدﷲ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
جیسا کہ ہم  نے تحقیق کی ہے ، پس اب اس پر فتوٰی دینا کہ یہاں زکوٰۃ دینا اسلئے جائز نہیں کہ جس کو دی جارہی ہے اس کے علم میں یہ نہیں ہے ، جیسا کہ علمِ ِدین میں اپنے فوقیت کا اعلان کرنے والے بعض حضرات نے کیا، یہ قلت تدبریا سوءِ فہم کی وجہ سے ہُوا۔ اﷲتعالٰی ہی ازالہ وہم پر مدد گار ہے والحمد ا ﷲ واللہ  سبحٰنہ وتعالٰی اعلم (ت)
Flag Counter